اہل اسلام کا اتحاد وقت کی ضرورت بھی ہے اور یہ اسلام کا دائمی حکم بھی ہے۔اسلام نے اتحاد کی تعلیم دی ہے اور افتراق سے بچنے کی تلقین کی ہے، اتحاد طاقت کا راز ہے اور اختلاف کمزوری کا سبب، مگر یہ بات ابتداء میں ہی جان لیں کہ تمام اختلافات مذموم نہیں، اگر اختلاف حدود کے دائرہ میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین کئی معاملات میں اختلاف ہوا لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اخلاص، للہیت انتہاء درجہ کی تھی، صحابہ کرام کے علاوہ تابعین، تبع تابعین، فقہاء، مجتہدین کے درمیان ہزاروں فقہی اور سیاسی مسائل میں اختلاف رہا، لیکن ان اختلافات کے باوجود وہ ایک دوسرے کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے تھے، یہ ان کے باہمی ادب و احترام کا ہی نتیجہ تھا کہ آج تک امت کے باشعور لوگ ان کا تذکرہ ادب و احترام ہی سے کرتے ہیں، اور کسی کو ان کی شان میں گستاخی کی جرأت نہیں ہوتی، عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر اختلاف نہ مذموم ہے نہ ممنوع، ایسا اختلاف جو اخلاص اور للہیت اور اصولوں پر مبنی ہو اس کی نا صرف شریعت نے اجازت دی ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہیں جبکہ مذموم اور ممنوع اختلاف وہ ہے جس کی بنیاد ریا اور نفسانیت پر ہواور شر اور فساد کا سبب بنیں، یہی وہ اختلاف ہے جو ہلاکت اور تباہی کا ذریعہ بنتا ہے ایسا اختلاف جماعت، ملک اور ادارہ کی بنیادیں ہلا دیتا ہے اللہ کی رحمت اٹھ جاتی ہے اور مختلف صورتوں میں عذاب کا نزول شروع ہو جاتا ہے، اگرچہ آج کل ہر شخص اپنے اختلاف کو اصولی اختلاف اور اصولوں پر مبنی قرار دیتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو بیشتر اختلاف فروعی نظر آئینگے۔ (عدم اختلاف کی صورتیں) مسلمانوں میں اختلاف کے اسباب میں غور و فکر کرنے سے قبل ہم پر ضروری ہے کہ عدم اختلاف کی صورتوں کو بھی جان لیا جاۓ۔ مسلمانوں کا اختلاف اصل دین اور اللہ کی وحدانیت میں نہیں ہے اور نہ ہی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی و رسول ہونے پر اور اسی طرح قرآن اللہ کا کلام ہے اور نہ ہی فرائض میں اختلاف ہیں (نماز، روزه، زكاة اور حج) اور نہ ان تکلیفات کے اداء کرنے میں اور نہ ہی اسی طرح محرمات یقینیہ میں مثلاً تحريم خمر اور خنزیر۔ (اسبابِ اختلاف) مسلمانوں کے درمیان اختلاف بلا شک و شبہ بعض عقائد کی طرف نظر کرتے ہوے شر ہیں جیسا کہ بخاری کی روایت ہے زینب بنت جحش فرماتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوے دراں حالے کہ آپ کا چہرہ سرخ تھا اور فرما رہے تھے( لا اله الا الله، ويل للعرب من شر قد اقترب)۔ (باب یاجوج و ماجوج، جلد ١، بخاری شریف) اور دوسری حدیث میں ہے (افترقت اليهود على احدى و سبعين فرقة، و افترقت النصارى ثنتين و سبعين فرقة و ستفترق امتي على ثلاث و سبعين فرقة) (صفحہ ٩٢، ابواب الایمان، جلد دوم، ترمذی شریف) ان احاديث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے بعد ہونے والے اختلاف و فساد سے واقف تھے۔ آپ نے انہیں کی جانب اشارہ بھی فرمایا۔ لوگوں کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمانوں میں اختلاف کیوں ہو گیا جب کہ آپ نے ایسی چیز کو چھوڑ کر گۓ جس کو پکڑے رہنے سے گمراہ ہونے کا امکان بھی نہیں تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بہ، کتاب اللہ و سنۃ رسولہ) (میں نے تمہارے درمیان دو امر چھوڑ دیئے ہیں جب تک اس کو پکڑے رہو گے گمراہ نہیں ہوگے، وہ کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ ہیں) پھر ایسا کون سا سبب ہے جس سے امت مسلمہ میں اختلاف ہوا؟
چند وجوہات ہیں:
١. عصبیت: یہ امت کے افتراق کا بنیادی ہے جب کہ اسلام میں عصبیت کے لۓ کوئی راستہ ہموار نہیں ہے جیسا کہ قرآن میں ہے (يا ايها الناس انا خلقناكم من ذكر و انثى و جعلناكم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اكرمكم عند الله اتقاكم ان الله عليم خبير) (آیت نمبر١٣ ،سورۂ حجرات) اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ليس منا من دعا الى عصبية) (باب فى العصبية، سنن ابى داود) اور دوسری جگہ ہے ( كلكم لآدم، و آدم من تراب، لا فضل لعربي على عجمي الا بالتقوى) عصبیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے حضرتِ عثمان بن عفان کے زمانے تک ظاہراً ظہور پذیر نہ ہوا لیکن حضرتِ عثمان کی خلافت ختم ہونے کے بعد جماعتیں ابھر کر نکل پڑیں۔سب سے پہلے اموی اور ھاشمی کے درمیان اختلاف ہوا پھر اسی طرح خوارج کے درمیان اختلاف ہوا۔ اور آج تک عصبیت کے بناء پر اختلاف ہوتا چلا آ رہا ہے۔
٢. اسلام میں بعض قدیم فکر و خیالات کا داخل ہونا: اسلام میں یھود، نصاری، فلاسفہ اور مجوسی کے افکار و خیالات کا داخل ہونا مسلمانوں میں اختلاف کا بہت بڑا سبب ہے۔ یہ اقوام اسلامی عقائد کو اپنے اپنے قدیم اعتقاد کے روشنی میں غور و فکر کرتے تھے مثلاً اللہ کی صفات غیر ذات ہے یا شئ واحد ہے۔اور بہت سے افراد ایسے بھی رہے جنہوں نے ظاہراً اسلام قبول کر لیا تھا لیکن انکا کام مسلمانوں کے امور دینیہ پر اعتراض کر کے مسلمانوں کے درمیان اختلاف کروانا تھا۔مثلا صفات باری تعالیٰ اثبات و نہی کا مسئلہ، ان سب مسائل میں بحث کرنے کے سبب اختلاف کا دروازہ کھلتا چلا گیا جو آج ایک بحر نا پیدا کنار کی صورت اختیار کر چکا ہے۔جب کسی مسئلہ میں نظریں مختلف ہونگی اور مسلک مختلف ہونگے تو ہر فکر و نظر کا دوسرے کے فکر و نظر سے اختلاف تو ہونا ہی ہے۔
٣. آیات متشابہات میں غور و خوض کرنا: قال تعالى ( هو الذي انزل عليك الكتاب منه آيات المحكمات هن ام الكتاب و اخر متشابهات)(آیت نمبر ٧، سورۂ آل عمران) اسی طرح آیات متشابہات میں غیر ضروری غور و خوض بھی اختلاف کا بہت بڑا سبب ہے۔ اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کے قرآن میں آیات متشابہات بھی ہیں تاکہ مؤمنین کے ایمان کا امتحان لیا جاۓ قرآن میں آیات متشابہات کے وارد ہونا علماء کے درمیان اختلاف کا سبب بنا بعض ذی فھم لوگوں نے آیات متشابہات کی تاویل کی اور اسکے حقیقی معانی پر پہونچنے کی کوشش کی لیکن تاویل مبین نہ ہو پانا اختلاف کا سبب بنا اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے آیات متشابہات میں کوئی تاویل نہیں کی سمعنا و اطعنا کہ کر چھوڑ دیا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
٤. نصوص شرعیہ سے مسائل اخذ کرنے کے سبب: کتاب اللہ اور سنتِ رسول سے مسائل اخذ کرنے میں بھی اختلاف، امت کے اختلاف کا سبب بنا۔اور یہ ایک ایسا سبب ہے جسکا ظہور دوام کی شکل اختیار کر چکا ہے اور یہ اختلاف اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک کہ صاحب استنباط احکام شرعیہ اپنی عقل و فکر کو ظنی نہ مان لیں یہ صورتِ اختلاف، اختلاف کا سبب نہ بنتی اگر اپنی عقل و فکر کو دوسروں پر لازم نہ کیا جاتا۔
٥. قصص: قصص بھی امت کے اختلاف کا بڑا سبب ہیں۔ قصص کی ابتداء حضرت عثمان بن عفان رضي الله عنه کے زمانے میں ہوا، حضرت علي بن ابي طالب رضي الله عنه قصہ گو ناپسند فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے قصہ گو کو مسجد سے نکال دیا تھا۔ قصاص، لوگوں کے ذہن میں طرح طرح کے خرافات گھڑا کرتے تھے۔ جس میں بعض کا تعلق سابقہ شریعت سے ہوتا اور بعض خود انہیں کا ہوتا جس کو سابقہ شریعت کی جانب منسوب کر دیا جاتا۔ عصر اموی میں قصص کی کثرت ہو گئی جس سے صحیح اور موضوع قصص کے درمیان تمیز کرنا مشکل ہو گیا۔ اور کتب تفسیر و کتب تاریخ اسلامی میں اسرائیلی روایات کے دخول کا سبب بنا۔ جو آج مسلمانوں میں اختلاف کا سبب ہیں.
٦. ائمہ کی تعظیم میں غلو اور لوگوں کی شریعت سازی: امت کے اختلافات اور گمراہی کے اسباب میں سے ایک سبب ائمہ کی تعظیم میں غلو اور قرآن اور حدیث سے ناواقف، شریعت سازی کرنے والے لوگ ہیں۔جنہوں نے خود کو بڑے بڑے القاب سے ملقب کر کے عوام کو بے وقوف بنا رکھا ہے، اور جنہوں نے دین میں بہت سی ایسی باتیں داخل کردی ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ مسلمانوں میں تفریق پیدا کر کے برٹش گورمنٹ کی طرح Divide and Rule کی پالیسی چلاتے ہیں۔ یہ لوگ عوام کو اپنی خودساختہ باتوں میں پھنسا کر قرآن و صحیح حدیث سے دور رکھتے ہیں کیونکہ اگر عوام قرآن و حدیث سے دور ہوں گے تو ان کے پیچھے ہی ہوں گے۔ پھر وہ جس طرح چاہیں عوام کو استعمال کر سکتے ہیں۔ اور لوگ بھی قرآن و حدیث کا علم رکھنے والے علماء کو چھوڑ کر ان ہی کی اندھی تقلید کرتے ہیں اور ان کو ہی ذریعۂ نجات سمجھتے ہیں۔ اس بات کی پیش گوئی بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی کردی تھی، آپ نے فرمایا: "اتخذ الناس روُسا جھالا فسئلوا، فافتوا بغیر علم فضلوا وضلوا۔"(١٩٤/١ ، باب کیف یقبض العلم، کتاب العلم ،البخاری) "لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے دین کے متعلق سوالات کئے جائیں گے اور وہ قرآن و حدیث کے علم کے بغیر فتویٰ دیں گے۔ اس لئے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔" اسلامی تعلیم کے مٖطابق علماء کو شریعت سازی کا حق دینا اور انہیں پیغمبریت کے منصب پر بٹھا دینا جائز نہیں۔ اللہ نے یہود و نصاریٰ کے بارے میں فرمایا: "اِتَّخَذُوا اَحبَارَھُم وَرُھبَانَھُم اَربَاباََ مِن دُونِ اللَّہِ۔" (آیت نمبر ٣١ سورۂ توبہ)"انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سواء رب بنا لیا۔" انہوں نے رب کیسے بنایا؟ حدیث میں ہے کہ وہ اپنے علماء اور بزرگوں کی حلال کردہ چیز کو حلال اور حرام کردہ چیز کو حرام سمجھتے تھے ، اور یہی رب بنانا ہے۔ یعنی علماء اور بزرگوں کی اندھی تقلید کرنا اور ان کو شریعت سازی کا حق دینا شرک ہے۔ عوام کے لئے ضروری ہے کہ جس سے بھی دین کی کوئی بات پوچھیں اس سے قرآن و حدیث کی دلیل مانگیں۔ تاکہ علماء اور جہلاء میں تمیز ہو سكے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بھی معلوم ہوجائے۔ اور نامعلوم دلیل والی بات کی پیروی کرنا بھی جائز نہیں، اللہ نے فرمایا: "و لا تقف ما ليس لك به علم۔"(آیت نمبر ٣٦، سورۂ بنی اسرائیل) "اور جس بات کا تجھے علم نہ ہو اس کی پیروی نہ کرو.
٧. نفس پرستی: اختلاف کا ایک سبب نفس پرستی ہے جب افراد اور جماعتیں خدا پرستی کی بجائے نفس پرستی شروع کر دیتی ہیں تو تنازعات کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے
٨. ضد و عناد: اختلاف کا سبب ضد و عناد بھی ہے جو کہ نفس پرستی ہی کا لازمی نتیجہ ہے،ہمارے یہاں بعض مسائل کا التزام اور فتاوے صرف دوسروں کی ضد و عناد میں دیا جاتا ہے۔
٩. حسد: اختلاف کا ایک بڑا سبب حسد ہے ،بہت سے لوگ دوسروں کی عزت و شہرت کو دیکھ کر جلتے ہیں اور پھر ان سے اصولی اختلاف شروع کر دیتے ہیں.
١٠. تشخص: تشخص بھی اختلاف کا بڑا سبب ہے، یعنی یہ خواہش کہ ہم لباس ، ٹوپی اور جھنڈے کے رنگ اور ڈیزائن کے اعتبار سے دوسروں سے جدا اور ممتاز نظر آئیں اور ہم امت کے سمندر کی موجیں بن کر اسی میں کہیں گم ہوجائیں، کاش کہ وہ جان سکتے کہ (موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ بھی نہیں)
١١. رسموں پر اصرار: رسموں پر اصرارکرنا اختلاف کا بہت بڑا سبب ٹہرا ہیں، بعض لوگ دین کے کسی ایک جزء اور خاندان کی کسی ایک رسم کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ اسے کفر اور ایمان کے درمیان حد فاصل ٹہرا لیتے ہیں اور اس کے لئے ہر کسی سے لڑنے مرنے کو تیار ہوتے ہیں.
١٢. شخصیت پرستی: حد سے بڑھی ہوئی شخصیت پرستی بھی اختلاف کا سبب ہے ایسے لوگ اپنے حضرات اور بزرگوں کے فرمودات کے مقابلے میں قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کو بھی ٹھکرا دیتے ہیں(نعوذباللہ من ذلک)
١٣. کم ظرفی اور تنگ نظری: کم ظرفی اور تنگ نظری اختلاف کا اہم سبب ہے،جس کی وجہ سے ایک گروہ دوسرے گروہ کے وجود کو برداشت کرنے کے لئے آمادہ نہیں۔ یہ چند باتیں ہیں کہ اگر انھیں ختم کرلیا جائے اور ان پر افراد امت سے لے کر اعیان قوم تک عمل پیرا ہوجائیں تو اختلافات کا خاتمہ ممکن ہے۔ جہالت سے نکل کر حقائق اور علم تک، تعصب سے ہٹ کر اخوت، محبت اور انسانیت تک اور اناپرستیوں سے ہٹ کر اخلاص، وفا، ادائیگی حقوق اور دوسروں کی رعایت تک پہنچ کر ہم اختلاف کو ختم کرسکتے ہیں اور اگر اختلاف پیدا بھی ہوجائے تو بجائے اس میں ایندھن بننے کے شرعی اسلوب میں اس کے خاتمے کی کوششیں کی جائیں تو ملت اسلامیہ کا وقار پھر بحال ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اختلاف، منافرت، تعصب، جہالت اور انانیت سے ہمیں محفوظ رکھے۔ آمین...
شھاب اللہ صدیقی

Comments
Post a Comment