تصو ف اور خدمت خلق


اسلامی تعلیم کا ایک نمایاں باب خدمت خلق سے موسوم ہے۔ اسلام میں بندگان خدا کی خدمت کرنا صرف ایک سماجی یا معاشراتی عمل ہی نہیں، بلکہ متعدد قرآنی آیات سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ یہ عمل خادم کی صلاح و فلاح کا ضامن ہے۔ اس لیے ملت اسلامیہ میں بالعموم اس کار خیر کی جانب رغبت دیگر قوموں سے زیادہ نطر آتی ہے اور ملت اسلامیہ کا ہر فرد حتی المقدور اس میدان میں سبقت کرنے کی سعی میں لگا رہا ہے اور پر کوئی کہیں نہ کہیں کسی مخلوق خدا کی خدمت کسی بھی طرح سے کر رہا ہے اور ان شاء اللہ کرتا رہے گا۔ 

لیکن کار خیر میں جو نمایاں پوزیشن صوفیائے کرام نے حاصل کی ہے، شاید ہی وہ کسی کے حصہ میں آئے۔ جس طرح یہ نفوس قدسیہ دوسری صفتوں میں دوسری جماعتوں سے ممتاز ہیں، وہیں اس میدان میں اپنے اعلیٰ کردار سے ایک نمایاں مقام رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان کے خادمانہ کارناموں نے دوسروں کے دلوں کو فتح کر لیا ہے۔

خدمت خلق کا جو آفاقی تصور قرآنی آیات اور سیرت طیبہ سے متصور ہے، بلکل اسی منہج پہ بلا تفریق مذہب و ملت یہ حضرات بھی تمام انسانوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ تعصب، نفرت اور عداوت کا تصور یہاں نہیں پایا جاتا۔ اس کی نظر میں یہ حدیث پاک ہوا کرتی ہے: ’’الخلق کلھم عیال اللہ‘‘ ساری مخلوق اللہ رب العزت کا کنبہ ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ ہر نفس بحیثیت انسان قابل لطف و کرم ہے۔ اس لیے بلا جھجھک وہ پوری انسانیت کی خدمت کرتے نظر آتے ہیں اور بھرپور انسانی محبت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ خدمت ہی صوفیہ کا شعار ہے اور یہی ان کی طریقت ہے۔ بقول سعدی:

طریقت بجز خدمت خلق نیست
بہ تسبیح و سجادہ و دلق نیست

تصوف میں خدمت خلق کی کیا اہمیت ہے؟ اس کا اندازہ مندرجہ ذیل معمولات و فرمودات سے لگایا جا سکتا ہے۔ عظیم المرتبت صوفی خواجہ ابو سعید ابو الخیر قدس سرہُ سے لوگوں نے سوال کیا، اللہ کی معرفت کا کا راستہ کیا ہے؟ آپ ارشاد فرماتے ہیں: ’’الصدق و الرفق، الصدق مع الحق و الرفق مع الخلق‘‘ یعنی سچائی اور نرمی، حق سبحانہُ تعالیٰ کے ساتھ سچائی ارو مخلوق کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنا۔

سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الہٰی قدس سرہ فرماتے ہیں: بازار قیامت میں کسی چیز کی اتنی پرسش نہیں ہوگی، جتنی کہ شکستہ دلوں کو راحت پہنچانے کی۔ ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :’’جو خدمت کرتا ہے وہی مخدوم ہوتا ہے۔‘‘

یہی وہ خادمانہ کردار ہے، جن کی وجہ سے بر صغیر ہند و پاک میں صوفیائے کرام کی محبت لوگوں کے دلوں میں موجزن ہے۔ لوگ جوق در جوق ان کی بارگاہ میں سر نیاز خم کرتے ہیں اور یہ حضرات اپنی کٹیا میں بیٹھے بیٹھے سیکڑوں افراد کو ایمان و عمل کی دولت سے سرفراز فرماتے ہیں۔ ان کا مشن ہی لوگوں کو راحت و سکون پہنچانا اور مخلوق کا تعلق اس کے مالک حقیقی سے ملانا ہے۔ عصر حاضرکے اس پر فتن و پر آشوب دور میں اگر ہر کوئی صوفیہ کے اس مشن پر عمل پیرا ہو جائے تو اسے دین و دنیا کی فلاح و بہبود کی ضمانت مل جائے۔


انجم  راہی

Comments