کسی کے ہرے بھرے باغ میں اگر اچانک آگ لگ جایے تو کیسا دل پسیج جاتا ہے اور پھر کیسے افسردگی اس دل کا مقدر ہو جا تا ہے بالکل ایسے ہی صورت حال اب ہماری ہو چکی ہے.
دل اس صدمے کو کیسے برداشت کرے کہ اس کے سامنے اس کا پیارا سا چمن لہلہاتا باغ جو کسی زمانے میں محبت کی نشانی اور امن کا استعارہ تھا اج نا جانے کس کی نظر بد کا شکار ہو گیا کہ بالکل نار نمرود بنتا چلا جارہا ہے ہر دن کوئی نا کویی اس اگ کے شعلوں کا شکار ہو رہا ہے اس میں پھونک مارنے والے ہر روز نیے نیے جرم کی مہر کسی نا کسی پہ لگاگر اسے اس اگ کے حوالے کرتے رہتے ہیں وہ سونے کی چڑیا کو ہمیشہ جلتے ہویے دیکھنا چاہتے ہیں اور مخصوص طبقے کو اس اگ کا ایندھن بنانا ان کا ہدف العین بن چکا ہے ایسے میں ہر کسی کی ذمہ داری بن گئی ہے کہ وہ ان بد بختوں کے ناپاک ارادوں کو ناکام کرنے کی پوری کوشش کریں اج وطن کے بیٹوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے وطن کی سالمیت کے لیے جان کی بازی تک لگا دیں کل ہمارے بڑوں نے انگریزوں سے وطن کو ازاد کرایا تھا اج ہم اپنی لگن اور کوششوں سے اپنے پیارے دیش کو بری قوتوں سے ازادی دلایے تبھی ہمارا ملک ترقی کر پایے گا کیوں کہ یہ ملک اک دلہن کی طرح ہے اور ہندو مسلم دونوں اس کی دو آنکھیں ہیں ان میں سے اگر ایک بھی خراب ہویی تو دیش کانی ہو جایے گی اور مجھے پوری امید ہے کہ دیش کے جوان اسے کسی بھی حالت میں عیب والی نہیں ہونے دیں گے یاد رہے کہ ہر عروج کے لیے زوال اور ہر زوال کے لیے عروج ہے اگ چاہے کتنی ہی شعلہ بار ہو کبھی نا کبھی اسے سرد ہونا ہی ہے
انجم راہی

Comments
Post a Comment